ISSN : 2581-5482

لکھنؤ

ادبی نشیمن

ADBEE NASHEMAN

سہ ماہی

ISSN : 2581-5482

لکھنؤ

ادبی نشیمن

ADBEE NASHEMAN

سہ ماہی

ایڈیٹر کا تعارف

معروف ادیب، صحافی اور ایکٹیوسٹ جنابِ ڈاکٹر سلیم احمد کی شناخت سرکاری حلقوں میں ایک ذمہ دار صحافی کے بطور مستحکم ہے اور وہ ادبی حلقوں میں افسانہ نگار، مرتب اور ماہرِ مطالعاتِ پروفیسر محمود الہی کی حیثیت سے پہچانے جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں سے آپ سہ ماہی ”ادبی نشیمن“ کے نام سےایک معیاری ادبی رسالہ نکال رہے ہیں اور لکھنؤ کی تابندہ ادبی روایات کی آبیاری کر رہے ہیں جسے پوری اردو دنیا میں لکھنؤ کی نمائندگی کے ایک قابلِ قدر باب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آپ ۱۵/ اپریل ۱۹۶۳ کو گورکھپور میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدگرامی مرحوم مبین احمد کی نگرانی میں مکمل کی اور ایم اے و پی ایچ ڈی کی ڈگریاں گورکھپور یونیورسٹی سے امتیازی نمبروں کےساتھ حاصل کی۔ پروفیسر محمود الہی کی خاص نگرانی میں انھوں نے تحقیق و تدوین کے رموز حاصل کیے اور مسابقتی امتحان پاس کرکے حکومت اترپردیش کے محکمہ اطلاعات ورابطہ عامہ میں مترجم ہوکر لکھنؤ کو اپنا مسکن بنالیا۔ اس درمیان صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے تحقیقی سفر کو بھی جاری رکھا اور درج ذیل کتابیں منظر عام  پر لانے میں کامیاب رہے
 ۔ اردو کے خطبات آزادی کی  تدوین(تحقیقی  مقالہ)
۔ گورکھپور۔غلامی سے آزادی تک
۔ تحریک آزادی۔کچھ بھولی بسری کڑیاں
۔ رشحات ۔پرو فیسر محمود الہٰی کی ادبی کاوشیں
۔ کلیات ہندی گورکھپوری (ترتیب و تدوین)
۔ نگارشات (پروفیسر محمود الہٰی کے خطوط مشاہیر ادب اور شاگردوں کے نام )
۔ سربراہ ( افسانوی مجموعہ) زیر طبع
ان صحافتی، تحقیقی اور ادبی خدمات کو انجام دیتے ہوئے وہ خدمت خلق سے بھی وابستہ رہے اورتعاون کے جذبے سے سماجی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کرتے رہے۔اس کے تحت وہ سڑک کنارے زندگی بسر کرنے والوں میں ہفتہ میں کھانا تقسیم کرنا،جھگی جھوپڑیوں میں وقتاً فوقتاً اناج تقسیم کرنا، ان کے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام وغیرہ،غریب لڑکیوں کی شادی میں دس ہزار روپے تک کی مدد کرنا،رمضان اور عید کٹ تقسیم کرناجیسے کام بغیر کسی تعاون کے نجی طور پرانجام دیتے رہے۔ گزشتہ لاک ڈائون میں کچھ خیرخواہوں کے تعاون سے تقریباً ساڑھے سات لاکھ کا غلہ بھی انھوں نے ضرورت مندوں میں تقسیم کیا ۔ اس ضمن میں لکھنؤ کے معروف شعراء ( بشمول انیس، دبیر ،آتش، ناسخ اور مصحفی) کے مزارات کی تزئین کاری کی ان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ نتیجتاً لکھنؤ کے ادبی و سماجی حلقوں میں اس سلسلے میں مثبت پیش رفت دیکھی گئی اور بقیہ مزارات کی تزئین کاری کے حوالے سے لوگ سنجیدہ ہوئے۔
ڈاکٹر سلیم کی شناخت کا ایک مستحکم حوالہ مطالعاتِ پروفیسر محمود الہی میں ان کی خاص دلچسپی کو سمجھا جاتا ہے۔ پروفیسر محمود الہی معروف ناقد، محقق اور اترپردیش اردو اکادمی کے فعال چیئرمین کی حیثیت سے ایک تاریخی اہمیت کی حامل شخصیت ہیں، جنہوں نے مولانا آزاد کی صحافیانہ کاوشوں کو دستاویزی شکل دے کر الہلال اور البلاغ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ ان ہی پروفیسر محمود الہی کی مختلف تحریروں کو ڈاکٹر سلیم احمد نے سنجونے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ پروفیسر محمود الہی نے مشاہیر کے نام جو خطوط رقم کیے تھے، ان خطوط کو ڈاکٹر سلیم احمد نے بڑی جانفشانی سے جمع کیا اور اترپردیش اردو اکادمی کے مالی تعاون سے اس قیمتی ذخیرے کو ”نگارشات“کے نام سے منظر عام پر لے آیا۔ اس سے قبل انھوں نے پروفیسر محمود الہی کی تحریروں کا ایک مجموعہ” رشحات: پروفیسر محمود الہی کی ادبی کاوشیں“ کے نام سے بھی شائع کرنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ ادبی نشیمن کی اشاعت کے پانچ سالہ سفر میں انھوں نے انور جلال پوری، محمود الہی، رشید حسن خان، گلزار زتشی دہلوی اور راحت اندوری، شمس الرحمن فاروقی اور فضل امام رضوی جیسی شخصیات پر گوشے اور نمبر شائع کیے اور لاک ڈاؤن میں انتقال کر جانے والے فنکاروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھوںنے ایک ضخیم شمارہ ”خراج عقیدت نمبر“ کے نام سے شائع کرایا جس کی ادبی حلقوں میں خوب خوب پذیرائی ہوئی۔

Dr. Saleem Ahmed

Mr. Rafat Naeem Safavi

ادبی مشیر کا تعارف

رفعت عزمیؔ زبان و ادب پر گہری نگاہ رکھنے والے ایک بزرگ فنکار ہیں اور استاد شاعر کے طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ آپ کا تعلق مضطر خیرآبادی کے خاندان سے ہے۔ آپ کی والدہ قدسیہ بیگم ، مضطر خیرآبادی کے صاحبزادے اعتبار حسین برترؔ کی صاحبزادی تھیں اور محشر تخلص کرتی تھیں۔ آپ کا پورا نام رفعت نعیم صفوی ہے اور آپ عزمیؔ تخلص فرماتے ہیں۔ آپ ۲۷ /نومبر ۱۹۵۲ کو قصبہ ردولی (فیض آباد ) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام نعیم الحق صفوی تھا جو فوج میں جونیئر کمیشنڈ آفیسر تھے۔ وہیں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے کانپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد آپ نے لکھنؤ یونیورسٹی میں پروفیسر شبیہ الحسن نونہروی کی نگرانی میں ” مضطر خیرآبادی : ایک بازیافت“ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ لکھنا شروع کیا مگر بوجوہ یہ کام پورا نہیں کر سکے۔ اس کے بعد آپ نے کاشی ودیا پیٹھ سے بیچلر آف جرنلزم کی ڈگری حاصل کی اور حکومت اترپردیش کے محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ میں ملازم ہو گیے اور عرصہ دراز تک ماہنامہ ”نیا دور“کے جوائنٹ ایڈیٹرکے طور پر خدمت انجام دیتے رہے۔ اس دوران آپ نے ”نیادور “کے کئی خاص شماروں کی ترتیب و تدوین میں کلیدی رول ادا کیا۔ ۳۰ /نومبر ۲۰۱۲ کو آپ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
رفعت عزمی غزلیں ، آزاد نظمیں، قطعات، دوہے جیسی اصناف پر طبع آزمائی کرتے ہیں لیکن آپ کا اصل میدان غزل ہی ہے۔ زبان کا خاص خیال رکھتے ہوئے جدید افکار کی پاسداری آپ کا وطیرہ ہے۔ روز مرہ پر عبور اور لکھنؤ کی ٹکسالی زبان کا استعمال آپ کے کلام میں جا بجا نظر آتا ہے۔ ابھی تک آپ کا شعری مجموعہ یا کوئی نثری تصنیف طبع ہوکر منظر عام پر تو نہیں آئی ہے لیکن آپ ملک و بیرون ملک کے مؤقر رسائل میں برابر شائع ہوتے رہے ہیں۔ رفعت عزمی کا ایک شعر ادبی حلقوں میں بےحد مقبول ہوا۔ شعر کچھ یوں ہے کہ: 

بعد مدت کے نیند آئی تھی
خواب دیکھا کہ جاگتا ہوں میں

نمونہء کلام
خواہشیں سب کی ہیں ارماں سب کے ہیں
مختلف معیار زنداں سب کے ہیں
میں اکیلا ہی نہیں ہوں بے حواس
شہر میں چہرے پریشاں سب کے ہیں

مجھے تنہائیاں گھیرے ہوئے ہیں
ہجوم دوستاں ہوتے ہوئے بھی
جہاں نفرت کی بولی بولتا ہے
محبت کی زباں ہوتے ہوئے بھی
مکیں سارے زمانے کو بنایا
خدانے لامکاں ہوتے ہوئے بھی

آبادی گنجان بہت ہے
تنہا کیوں انسان بہت ہے
چیرے پر شاداب تبسم
لیکن دل ویران بہت ہے
شہر خرد کے باشندوں میں
جذبوں کا فقدان بہت ہے
اردو نظم و نثر پہ عزمی
غالب کا احسان بہت ہے
زبان و ادب کا یہ رمز شناس سہ ماہی ادبی نشیمن کے ادبی مشیر کی حیثیت سے اول دن سے وابستہ ہیں۔

معاون مدیر کا تعارف

شاہد حبیب، علم و ادب کا ستھرا ذوق رکھنے والے نوجوان قلم کار ہیں۔ وہ ناقد، افسانہ نویس اور تجزیہ نگار کے طور پر اپنی شناخت مستحکم کر رہے ہیں۔ سیاسی، سماجی و ماحولیاتی موضوعات پر لکھے ان کے کالمز کو اودھ نامہ لکھنؤ، آگ لکھنؤ ، انقلاب، راشٹریہ سہارا اور دیگر اخبارات کے قارئین کے درمیان اعتبار کی نظروں سے دیکھا جانے لگا ہے۔ وہ بہار کے سپول ضلعے میں یکم جولائی 1987 کو پیدا ہوئے اور معروف درسگاہ جامعۃ الفلاح، بلریاگنج، اعظم گڑھ سے فراغت کے بعد اس وقت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس سے ڈاکٹر مجاہد الاسلام کی نگرانی میں”جدیدیت کے تحت لکھے گئے اردو افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ : حقوق انسانی کے تناظر میں“کے موضوع پر ریسرچ کی تکمیل کر رہے ہیں۔

شاہد حبیب نے 2009 میں ادب و صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اُس وقت ڈاکٹر ابوظفر عادل اعظمی اور یو این این کے بانی مرحوم اصغر انصاری اور مرحوم مفتی اعجاز علی ارشد نے اس میدان کی باریکیوں سے انھیں واقف کرایا تھا۔ تیس افسانوں پر مشتمل ان کا افسانوی مجموعہ ”مرمرہ کے ساحل پر “ جلد ہی منظرِ عام پر آ رہا ہے۔

شاہد حبیب ادب و صحافت کی وابستگی کے ساتھ ساتھ ایک انٹرپرینیور کے طور پر بھی سرگرم ہیں اور” سِشر گلوبل پرائیوٹ لمیٹڈ“ نام کی ایکسپورٹنگ کمپنی کے فاؤنڈر اور سی ای او کے بطور خدمت انجام دے رہے ہیں اور سہ ماہی ”ادبی نشیمن“ کے معاون مدیر کے طور پر گزشتہ ڈھائی برسوں سے وابستہ ہیں۔

Mr. Shahid Habib