لکھنؤ نے ادبی صحافت کے حوالے سے ہر دور میں منفرد و ممتاز شناخت قائم کی ہے۔ ماضی قریب میں ماہنامہ نگار، ماہنامہ فروغ اردو، ماہنامہ کتاب، ماہنامہ معلم اردو وغیرہ نے نمائندگی کا خاطر خواہ حق اداکرتے ہوئے لکھنؤ کی علمی و ادبی سرگرمیوں کو ہر دم تازہ رکھا ۔ حکومتِ اترپردیش کی جانب سے 1955 میں جاری رسالہ ”نیا دور“نے ادبی صحافت کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کیا اور کئی کامیاب نمبر نکالے جن میں تعمیری ادب نمبر، جواہر لال نہرو نمبر، اثر لکھنوی نمبر، مہاتما گاندھی نمبر، میر انیس نمبر، غالب نمبر، امیر خسرو نمبر، نول کشور نمبر، فراق کے دو خصوصی نمبر، نصف صدی نمبر اور کیفی اعظمی نمبر وغیرہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ یہ خصوصی شمارے اپنی بیش بہا معلومات اور دلکش انداز ترتیب کے حوالے سے ابھی تک لوگوں کو گرویدہ بنائےہوئے ہے۔لیکن افسوس اس وقیع رسالے کی اشاعت گزشتہ کئی سالوں سے معرضِ التوا میں پڑی ہوئی ہے اور سرکاری افسران کو اس رسالے کی اشاعت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ۔ اردو دنیا کی سرکردہ شخصیات کی توجہ دہانی کے باوجود بار بار اشاعت کی صرف اطلاع ہی آئی، اس کے سوا کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔سابق ایڈیٹر عاصم رضا نے جو گورکھپور نمبر ترتیب دیا تھا جس میںکافی اہم مضامین شامل تھے وہ بھی منصہ شہود پر نہ آسکا۔ اللہ کرے رسالہ پھر سے پابندیِ وقت کے ساتھ اشاعت پذیر ہونے لگے۔
اترپردیش اردو اکادمی کے رسالے سہ ماہی ”اکادمی“، اور ماہنامہ ”خبرنامہ “ کے ساتھ ساتھ ماہنامہ ”لاریب“، دو ماہی ”گلبن“ اور سہ ماہی ”امکان جدید“ نے بھی لکھنؤ میں ادبی صحافت کا چراغ روشن کیاہے اور اپنے حصے کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ڈاکٹر سلیم احمد نے ڈاکٹر محمود الہٰی صاحب کی علمی و ادبی وراثت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر پانچ سال قبل یعنی دسمبر 2017 میں ”ادبی نشیمن“ کے نام سے ایک نیا چراغ روشن کیا تھا۔اس رسالہ کا اجرا پروفیسر شارب ردولوی کے بنا کردہ ادارہ ”شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج “ میں ہوا تھا اور اس پروگرام میں رسالہ کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے تھے۔ میں بھی شریک پروگرام تھااور مجھے خوشی ہے کہ جس جوش و جذبہ کے ساتھ رسالے نے خدمت ادب کاخواب سنجویا تھا وہ شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے ۔اس قلیل مدت میں جس طرح سے اس رسالے نے سورج بننے کے سفرکو طے کیا ہے اوراپنا ایک خاص معیار بنایا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ مختلف النوع مشمولات کے سبب بزرگ اور نو آموز قلمکاروں کی توجہ اس رسالے کو یکساں طور پر مل رہی ہے۔ پانچ سالوں کے بیس شماروں میں اس رسالے نے بیشتر ایسے موضوعات کو روشن کیا جس کی طرف عام مدیران کی توجہ کم جاتی ہے۔ بیشک یہ ڈاکٹر سلیم احمد اوران کی ٹیم کی کاوشوں کا ثمرہ ہے جو نہ صرف رسالے کی باریکیوں پر نظر رکھتی ہے بلکہ ہر مضمون کو لفظاً لفظاً پڑھ کر وقت ضرورت اصلاح بھی کرتی ہے۔ اس طرح یہ جریدہ اردو کے چند معیاری رسالوں میں اپنی منفرد حیثیت بنانے میں کامیاب رہا ۔
ڈاکٹر سلیم احمد کی ٹیم ادبی مشیر کے طور پر حکومت اترپردیش کے سبکدوش انفارمیشن افسررفعت عزمی،ڈاکٹر غلام حسین (اجین)، ڈاکٹر رضی الرحمن (صدر شعبہ اردو، گورکھپور یونیورسٹی)، ڈاکٹر شکیل احمد (مئو)، ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی (ایڈیٹر روزنامہ آگ، لکھنؤ)، وصی اللہ حسینی (سب ایڈیٹر، روزنامہ راشٹریہ سہارا، لکھنؤ) جیسے سینئر اور تجربہ رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے جس سے ادبی نشیمن کی ریویو پالیسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں ڈاکٹر مجاہد الاسلام (اسسٹنٹ پروفیسر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس ) کا نام بھی جڑ گیا ہےجسے سےرسالہ کی مزید ترقی کی امید مستحکم ہو گئی ہے۔ اسی کے ساتھ میرے عزیز اور باذوق معروف نوجوان قلم کار شاہد حبیب کو بھی ڈاکٹر سلیم احمد نے بطورِ معاون ایڈیٹر اپنی ٹیم میں شامل کیاہے۔ شاہد حبیب مانو، لکھنؤ کیمپس میں ریسرچ کے آخری مراحل میںہے اور اپنی اصول پسندی کی وجہ سے اپنے حلقہ ٔاحباب میں خاصے معروف ہیں۔ وہ گزشتہ سال سے ادبی نشیمن سے جڑے ہیں اور اپنے اختیارات کے مطابق ، رسالے کی پیشکش کومزید بہتر بنا رہے ہیں۔ امید ہے وہ رسالے کو”تجمل شاہانہ“ پالیسی سے دور رکھتے ہوئے ایک خالص ادبی ماہنامہ کے راستہ پر گامزن رکھیں گےاورغیر جانبداری کے ساتھ معیاری تحریروں کو جگہ دیں گے ۔ خوشی کی بات ہے کہ رسالے کو قارئین کی طرف سے مقبولیت بھی حاصل ہو رہی ہے اور جس نوع کے تاثرات ادبی نشیمن کو موصول ہو رہے ہیں، اس سے رسالے کے روشن مستقبل کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ حیدرآباد سے ڈاکٹر محمد جابر حمزہ نے تازہ شمارے پر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
محترمی و مکرمی ایڈیٹر صاحب/ سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ
آداب و تسلیمات
ادبی نشیمن کا دسمبر تا فروری 2022 کا شمارہ ملا، دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے ناچیز کے مضمون ”رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کا فکری مطالعہ: بادشاہ اور معجزہ کے حوالے سے“ کو شائع فرمایا ہے۔ آپ نے ایڈیٹوریل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مضمون کے عنوان کو قدرے تبدیل کیا ہے۔ یہ اولِ وہلہ میں ذرا گراں گزرا لیکن بعد میں یہ تبدیلی مناسب ہی معلوم ہوئی۔
آپ نے اپنے اداریے میں اترپردیش اردو اکادمی کی فعالیت کو لے کر جو کچھ کہا ہے اور جن نئے کاموں کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ قابلِ تعریف ہے اور ضروری بھی۔ ایک زمانہ تھا جب اترپردیش اردو اکادمی ملک بھر کی اکادمیوں میں سب سے فعال اور تحقیقی رفتار کے حوالے سے مثالی سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج اکادمی نے اپنی اندرونی سیاست کا شکار ہوکر بہت کچھ کھو دیا ہے۔ جو قابل افسوس ہے۔ جس طرح سے آج دہلی اردو اکادمی کو ملک بھر میں ایک منفرد شناخت حاصل ہے، اسی طرح سے پروفیسر محمود الٰہی کے زمانے میں اترپردیش اردو اکادمی کو امتیازی شناخت حاصل تھا۔ آپ نے اپنے اداریے میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور جو لائحہ عمل پیش کیا ہے اگر تیزی کے ساتھ اکادمی کے ارباب اختیار ان کو روبہ عمل لانے لگیں تو بعید نہیں کہ جلد ہی اترپردیش اردو اکادمی بھی اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ہم اور آپ تو خواہش اور دعا ہی کر سکتے ہیں۔
زیر نظر شمارے کے مضامین کا سیکشن کافی معلوتی ہے۔ مضمون نگاروں نے تو معیاری مضامین لکھے ہی ہیں لیکن آپ کے ایڈیٹوریل ٹچ نے ان مضامین کو مزید معیاری اور خوبصورت بنا دیا ہے۔ آپ کی کوششوں کے شواہد رسالے کے صفحات پر جگہ جگہ نظر آ رہے ہیں۔ برادر عزیز شاہد حبیب کا مضمون ”قرۃالعین حیدر کے افسانے اور حقوقِ انسانی کے مسائل“ ایک نئے زاویے سے قرۃالعین کے افسانوں کی قرات کی طرف دعوت دینے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ ادبی نشیمن کا یہ امتیاز بھاتا ہے کہ نئے پرانے اسکالرز کے توازن کو برقرار رکھنے میں یہ رسالہ اپنی مثال پیش کر رہا ہے۔ رسالے میں شامل مجتبیٰ حسن صدیقی کی غزل نے ان کی شاعری کے جداگانہ نہج کی طرف کامیاب اشارہ کیا۔ بطور خاص یہ شعر کہ:
ایک بھی موقع نہیں دیتی کسی کو زندگی
اور ہم جیسوں کو یہ موقع دوبارہ چاہیے
کیا خوبصورت شعر ہے۔ مجتبیٰ حسن صدیقی کو ناچیز کی طرف سے ہزارہا داد اور ان کی فکری و فنی ریاضتوں کو سلام۔
شکریہ
مخلص
ڈاکٹر محمد جابر حمزہ
گیسٹ فیکلٹی، شعبہء اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
ڈاکٹر جابر حمزہ کے اس خط سے ادارتی ٹیم کی محنتوں اور ان کی بالغ نظری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح خواجہ معین الدین چشتی لسان یونیورسٹی، لکھنؤ کی ریسرچ اسکالر عافیہ حمید نے رسالے کے مشتملات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
محترمی و مکرمی ایڈیٹر صاحب/ ادبی نشیمن،لکھنؤ
تسلیمات
شکر ہے آج لکھنؤ سے بہت سے ادبی رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ ہر رسالے کی اپنی انفرادی خصوصیات ہیں اور وہ اپنی انفرادیت کی بنا پر ادبی دنیا میں متعارف بھی ہیں اور مخصوص شناخت کا حامل بھی۔ ادبی نشیمن بھی لکھنؤ سے ہی شائع ہونے والا ایک علمی و ادبی رسالہ ہے۔ جو نہ صرف ایک رسالہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک انجمن کی بھی شان رکھتا ہے۔ یہ رسالہ ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کی ادارت میں ہر تین ماہ پر پابندی کے ساتھ منظر عام پر آتاہے اور علمی تشنگی کو بجھانے کا سبب بنتا ہے۔
اس وقت دسمبر تا فروری 2022 کا شمارہ میرے پیش نظر ہے۔ اس کے ہر صفحے کو ادبی گل بوٹے سے آراستہ کیا گیا ہے مگر جو بات دل کو خوش کرتی ہے وہ یہ ہے کہ رسالے کا اپنا ایک متعین معیار ہے۔ اس میں شائع تمام تحریریں پختہ اور معیاری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس میں نئے لکھنے والوں کو بھی فراخ دلی کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے اور خاطرخواہ اصلاح بھی کی جاتی ہے تاکہ مضمون معیاری بن سکے۔ خوشی اس بات کو دیکھ کر بھی ہوتی ہے کہ اس رسالے میں تمام اصناف سخن کا خیرمقدم کیا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی نشیمن نے اپنی خصوصیات کے دم پر بہت جلد ادبی دنیا میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ بلاشبہ اس طرح کے کام میں بےحد محنت، وقت اور توجہ درکار ہوتا ہے اور ساتھ ہی بہت ہی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود رسالہ پابندی سے نکل رہا ہے، یہ فال نیک ہے اور اس کا سارا کریڈٹ مدیر محترم اور ان کے معاونین کو جاتا ہے۔ جن کی کوششوں کی بدولت رسالہ ادبی افق پر روشنی بکھیرنے میں کامیاب نظر آ رہا ہے۔
زیر نظر شمارے میں کل دس مضامین، چھ غزلیں، دو تبصرے اور ایک ایک حمد و نعت شامل ہیں۔ تمام ہی مضامین انتہائی بیش قیمتی ہیں اور نامعلوم جہتوں سے آشنا کرانے والے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگاروں کا قلم پختہ، فکر وسیع اور مطالعہ گہرا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مضمون نگاروں نے حوالوں اور ماخذ و مصادر کا بطورِ خاص اہتمام کیا ہے۔ جو کہ تحریر کو پختگی عطا کرتی ہے۔ قوی امید ہے کہ یہ مضامین اردو کے پروانوں کے لیے بےحد مفید ثابت ہوں گے۔
بدلتے موسم کا قہر، ڈاکٹر عارف انصاری صاحب کا افسانہ ہے جو ادبی نشیمن کے زیر نظر شمارے کی زینت بننے میں کامیاب ہوا ہے۔ اچھا افسانہ ہے۔ موضوع اور تکنیک توجہ کھینچنے میں کامیاب رہی ہے۔ خواہش کروں گی کہ افسانے کے اکلوتے پن کو ختم کرکے اگلی اشاعتوں میں مزید کچھ افسانوں کو جگہ دی جائے۔
ادبی نشیمن جہاں نثری صلاحیتوں کو نکھارنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ وہیں اس نے ذوقِ شاعری کو جلا بخشنے میں بھی کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی ہے۔ خوشی ہے کہ اس شمارے میں چھ خوبصورت غزلوں کو بھی جگہ ملی ہے۔ ان غزلوں کے شعراء دور حاضر کے چنیدہ شعراء کی صف میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں۔ کیونکہ ان میں سے کچھ شعراء کی تو کئی کئی شعری مجموعے بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جیسے ذکی طارق، افتخار راغب اور عبرت مچھلی شہری صاحب۔ باقی شعراء نے کم لکھا، مگر جتنا لکھا اور جو لکھا، وہ معیاری اور عمدہ ہیں۔
اس کے ساتھ ہی دو عمدہ کتابوں پر بہترین تبصرے شامل ہیں۔ بے شک یہ نہایت مدلل اور مبسوط تبصرے ہیں اور اردو کے طلبہ کے لیے ان کتابوں کو سمجھنے میں رہنما ثابت ہوں گے۔
رسالہ ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کے اداریے سے شروع ہو کر دستاویز کے معلوماتی صفحہ پر ختم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر شمیم نکہت ایوارڈ فنکشن کے پروقار منظر کے عکس کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ اپنے عہد کی تاریخ کو سمیٹنے کی یہ کوشش متاثر کن ہے اور قابلِ داد بھی۔ ادبی نشیمن کے مدیر اور تمام معاونین کو اس خوبصورت رسالے کی اشاعت پر دل سے مبارک باد اور دعائیں۔
ناز کرتا ہے زمانہ، ناز کو بھی ناز ہے
تو بلندی پر رہے، یہی دل کی آواز ہے
شکریہ ، والسلام
عافیہ حمید
ریسرچ اسکالر، خواجہ معین الدین چشتی لسان یونیورسٹی، لکھنؤ۔
محترمہ عافیہ حمید کے اس خط سے ادبی نشیمن کی مشمولات کے تنوعات اور ان کی خوبیوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے اسکالر سفیان احمد انصاری قاسمی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ادبی نشیمن کی طرف سے نوآموز قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ:
بخدمت گرامی قدر محترم ڈاکٹر سلیم احمد صاحب / زیدت فیوضکم،
مدیر سہ ماہی ادبی نشیمن
سلام مسنون
برادرم شاہد حبیب فلاحی کے توسط سے ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ باصرہ نواز ہوا، سر ورق نہایت خوبصورت، دلکش اور جاذب نظر ہے، ڈاکٹر صاحب موصوف کی مساعی جمیلہ نے نت نئے ڈھنگ سے بہرصورت سنوار کر رسالے کو پیش کیا ہے جو اُن کے تصورِ جمال کا مظہر ہے۔ اس کے لیے موصوف صرف لائقِ تحسین وتبریک ہی نہیں بلکہ قابلِ مبارکباد اور فخر و مباہات ہیں۔ علاوہ ازیں رسالہ مشمولات کے اعتبار سے بھی خوب سے خوب تر اور منفرد و ممتاز ہے اور ایک معیاری رسالہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہا ہے، جس میں مدیرِ محترم کی شب وروز کی جگر کاوی کا بڑا دخل ہے۔ دورِ حاضر میں اردو کا اخبار جاری کرنا یا کوئی اردو مجلہ وجریدہ نکالنا جوئے شیر لانے اور پہاڑوں سے نہر کھودنے کے مترادف ہے، ایسے حالات میں ادبی نشیمن کا پابندی سے وقت پر شائع ہونا راقم کے نزدیک خوش آئند ہے اور اُردو کے روشن مستقبل کا ایک خوبصورت اعلامیہ ہے۔
یہ کہنے میں کوئی ہچک نہیں کہ اُردو کے دیگر جرائد کے مقابلے ادبی نشیمن اُردوادب کی ترویج وترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ممتاز مقام بنانے میں بھی کامیاب وکامران نظر آتا ہے۔ یہ میری کوئی رسمی مدح سرائی نہیں بلکہ حقیقت بیانی ہے۔
سالِ گزشتہ ناچیز کا بھی ایک مضمون ادبی نشیمن میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا تھا، اس عنایت کے لیے شکر گزار ہوں اور شکریے کی ادائیگی میں تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ ساتھ ہی ناچیز مدیر محترم کا مشکور وممنون بھی ہے اور مستقبل کے لیے منتظرِ کرم بھی۔
فقط والسلام
سفیان احمد انصاری
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ۔ المتوطن : ناظرپورہ، بہرائچ (یو پی)۔
موبائل :9839574196
جنابِ سفیان قاسمی کے اس خط سے ادبی نشیمن کی بے لوث خدمت پر روشنی پڑتی ہے اور ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کی وسیع الظرفی کا بھی اعتراف ہوتاہے۔ فتحپور (یو پی) سے سدرہ علی احمد نے ادبی نشیمن کی جملہ نگارشات کا جائزہ لیا ہے اور اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
محترم المقام مدیرِ ادبی نشیمن / حفظہ اللہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ نظر نواز ہوا۔ ورق گردانی سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک ایسا رسالہ ہے جو ہر تین ماہ بعد عالم ادب میں منظرِ عام پر آ کر اپنی مقبولیت کے پرچم کو بلند کرتا ہے۔ ٦٤ صفحات پر مشتمل رسالے کی فہرست پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو دلی خواہش ہوئی کہ صرف فہرست ہی کیوں، اصل مواد کا بھی رخ کروں اور پر کیف نشیمن سے بھرپور لطف اندوز ہوں۔
پھر کیا تھا دھیرے دھیرے صفحات کھولتی گئی اور مختلف النوع مضامین، نعت، حمد، تبصرے، افسانے اور غزل سے محظوظ ہوتی رہی۔ نشیمن کے آغاز میں حمد ربانی اور نعت نبی نے دل میں عظمت الٰہی اور عشق رسول کی چنگاری کو فروزاں کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ احساس بھی دلایا کہ نشیمن توحید و رسالت کی سرشاری سے خالی نہیں ہے۔ اس کے بعد ایڈیٹر صاحب کے نظریے کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ شعراء و ادبا کے لئے وظیفے کی رقم میں بڑھوتری کس قدر ضروری ہے۔ نظریے کے مطالعے کے بعد نظریں جب اگلے صفحات پر مرکوز ہوئیں تو دس سے زائد اصحابِ قلم کے علمی مضامین سے جا ٹکرائیں۔ جن میں ڈاکٹر نارائن پاٹیدار کا ”نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں حقیقت نگاری“، ڈاکٹر شریف الدین خاں کا ”تحقیق و تنقید کے باہمی رشتے اور عصری تقاضے“، ڈاکٹر فائزہ خان کا ”سر سید : جہان تازہ کی افکار سے تازہ ہے نمود“، ڈاکٹر محمد رضی الرحمن کا ”فراق گورکھپوری کی شعری انفرادیت“، ڈاکٹر محمد جابر حمزہ کا ”رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کا فکری مطالعہ“ اور شاہد حبیب کا ”قرۃ العین حیدر کے افسانے اور حقوق انسانی کے
مسائل“ جیسے مضامین نے زیادہ توجہ کھینچی۔ باقی مضامین میں بھی قارئین کے لئے دلچسپی کے سامان موجود ہیں۔ شمارے میں مختلف موضوعات پر علمی ذخیرے اکٹھا کئے گئے ہیں۔ مجموعی طور سے مضمون نگاروں کی محنت و لگن اور قلمکاروں کی زبردست علمی سوچ کی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔ نشیمن میں ڈاکٹر عارف انصاری کا ایک خوبصورت افسانہ بھی شامل ہے جس کا نام ”بدلتے موسم کا قہر“ہے۔ افسانے کی مسحور کن فضا سے نکلنے کے بعد اہم شعراء (ذکی طارق، افتخار راغب، مجتبی حسن صدیقی، محبوب خان اصغر، سید محمد نور الحسن نور نوابی عزیزی) کی غزلیں پیش کی گئی ہیں۔ ان غزلوں سے شعراء کے جذبات کا بھرپور اظہار ہو رہا ہے اور ان کے انداز بیان نکھر کر سامنے آ رہے ہیں۔
نشیمن میں دو کتابوں پر تبصرے بھی شامل ہیں جن میں ”رشید حسن خاں کی غالب شناسی“ اور ”ادبی ہستیاں و بستیاں“ جیسی دلچسپ کتابوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں مبصرین نے کتابوں کی خوبیوں اور خصوصیات کو اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے۔
الغرض پورا کا پورا نشیمن اپنے اک اک صفحے سے ایک نئی اور ضروری معلومات قارئین کے لئے فراہم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
دعا گو ہوں کہ نشیمن اور اہل نشیمن یوں ہی مقبولیت کے منازل طے کرتا رہے اور اعلی ادب کو منظر عام پر لاتا رہے۔ آمین!
شکریہ والسلام
دعا گو
سدرہ علی احمد
فتحپور (یو پی)
محترمہ سدرہ علی احمد نے اپنے اس خط میں جن جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے، وہ احساسات ہر اس قاری کے ہوں گے، جس نے بھی بنظر غائر ادبی نشیمن کا مطالعہ کیا ہوگا۔ ادبی نشیمن کو موصول ہو رہے تاثرات کی فہرست لمبی ہے۔ اس مضمون کی تنگ دامنی سبھی تاثرات کو سمیٹنے کی اجازت نہیں دیتی۔
ان خطوط سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ادبی نشیمن کی مقبولیت میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا معیاربھی بتدریج بلند ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں ادب کے قلمکاررسالہ کو اپنی تحریریں از خود بھیج رہے ہیںاور شمولیت پرخوشی کا اظہار فرما رہے ہیں ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا حق بجانب ہوگا کہ ادبی نشیمن اردو دنیا میں لکھنؤ کی نمائندگی بھرپور طریقے سے کر رہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ رسالہ یوں ہی مستقل نکلتا رہے اور اس کا فیض اردو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچے۔ اپنے مضامین کی اشاعت کے لیے، ادبی نشیمن کی ممبرشپ لینے کے لیے اور ادبی نشیمن میں اشتہارات دے کر اپنی کتاب یا تجارت کو فروغ دینے کے لیے ڈاکٹر سلیم احمد صاحب سے ان کے واٹس اپ نمبر 9415693119 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ قارئین کو اس نمبر پر رابطہ کرکے نمونے کی کاپی ضرور طلب کرنی چاہیے کہ یہ بھی اعلیٰ ادب کو فروغ دینے کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ شکریہ۔ رہے نام اللہ کا۔
(موسی رضا، ریسرچ اسکالر مانو لکھنؤ کیمپس)
لکھنؤ کے ادبی فلک کا درخشندہ رسالہ: ادبی نشیمن
لکھنؤکے ادبی فلک پر بے شمار اخبار و رسائل کی کہکشا ں دیکھنے کو ملتی ہے ۔منشی نول کشور کا ’اودھ اخبار‘جس میںپنڈت رتن ناتھ سرشار کا ناول فسانہ آزاد قسط وار شائع ہوتا تھاجو لکھنؤ کی زوال پذیر تہذیب کا عکاس ہے۔ منشی سجاد حسین کا ہفتہ وار رسالہ’ اودھ پنچ‘ جس کی ہر بڑے شہر کے اہل قلم نے نقل کرنے کی کوشش کی اور اس کی طرز پرلاہور پنچ،آگرہ پنچ،دکن پنچ،بنارس پنچ وغیرہ نہ جانے کتنے شہروں سے پنچ نام کے رسالے نکالے گئے۔اودھ پنچ کا طرہ امتیاز طنز و ظرافت ہے۔اس رسالہ کی کہکشاں کے جھرمٹ میںمنشی سجاد حسین،مرزامحمدمرتضیٰ ستم ظریفؔ،جوالا پرساد برقؔ،منشی احمد علی شوقؔ،اکبرؔ الہ آبادی،پنڈت تربھون ناتھ وغیرہ کے نام نامی قابل ذکر ہیںجنہوں نے منثور و منظوم میں طنزو مزاح کی ست رنگی پھلجڑیاں بکھیری ہیں۔عبدالحلیم شررؔ کا رسالہ’ دلگداز‘اہل ادب کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے جو جدید اردو نظم اور تاریخی ناول کے فروغ میںچراغ راہ ثابت ہوا ہے ۔نیاز فتح پوری کا رسالہ’ نگار‘چاردہائی سے زیادہ کے عرصے تک ہند و پاک کے اہل قلم کے لئے مشعل راہ بنا رہا ۔ عبدالماجد دریا آبادی کا رسالہ (۱) سچ اور (۲)صدق، عابد سہیل کا رسالہ’ کتاب‘،ملک زادہ منظور احمد کا رسالہ’ امکان‘ وغیرہ ایک عرصے تک علمی،ادبی،لسانی اور نظریاتی ضو فشاں سے اہل علم و فن کی پیاس بجھاتے رہے اوران کے اذہان و قلوب کو منور کرتے رہے۔ یہ زمانے کے نشیب و فراز میں اپنی ضیاء بکھیر کر گم ہو گئے ۔
رسالوں کی کہکشاں میں جو رسالے ابھی بھی درخشاں و رخشندہ ہیںاور جنہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہے ان میں علی جواد زیدی کی ادارت میں 1955 سے شائع ہونے والاماہنامہ’ نیادور‘محکمہ اطلاعا ت و نشریات،حکومت اترپردیش،سہ ماہی ’ اکادمی‘،اترپر دیش اردو اکادمی،لکھنؤ اور ماہنامہ’ خبر نامہ‘ اترپردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ کے نام گرامی شامل ہیں۔غیر سرکاری ادارت میں شائع ہونے والے جریدوں میںرشید قریشی کا ماہنامہ ’لاریب‘،محمد حسین شمس علوی کاماہنامہ’ فروغ اردو‘،ثریا ہاشمی کا دو ماہی رسالہ’ گلبن‘، ڈاکٹرسلیم احمد کا سہ ماہی رسالہ ’ادبی نشیمن‘وغیرہ لکھنؤکے ادبی فلک پر رسالوں کی قندیلیں روشن کئے ہوئے ہیںاور سماجی،علمی،ادبی،لسانی،فکری، نظریاتی واسلوبیاتی ضیاء سے قصر ادب اردو کے مختلف گوشوں کو منور کر رہے ہیں۔عہد حاضر کے رسالوں میں جس رسالہ کی ضو فشاںاہل علم و ہنر کوسب سے زیادہ توانائی وتازگی بخش رہی ہے،جس کی ادبی شہرت و مقبولیت کا پھریرا چہار سو لہرا رہا ہے اس رسالہ کا نام ’ادبی نشیمن ‘ ہے۔’ادبی نشیمن ‘کے رسم اجرا کے موقع پر ’اودھ نامہ‘ اخبار کے نامہ نگار اور کالم نویس موسی رضاجواس وقت وہاں موجود تھے،پانچ سال بعد6 مارچ 1922 ء کو اپنے مضمون ’اردو صحافت کا نمائندہ :سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ‘کے متعلق اپنے نیک خیالات وخواہشات کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ڈاکٹر سلیم احمدنے ڈاکٹر محمود الٰہی صاحب کی علمی و ادبی وراثت کواپنے کاندھوں پر اٹھاکرپانچ سال قبل یعنی دسمبر2017میںادبی نشیمن کے نام سے ایک نیاچراغ روشن کیا تھا۔اس رسالہ کا اجراء پروفیسر شارب رودولوی کے بنا کردہ شعاع فاطمہ گرلز انٹر کالج میں ہوا تھا اور اس پروگرام میں رسالہ کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے تھے۔میں بھی شریک پروگرام تھااور مجھے خوشی ہے کہ جس جوش و جذبہ کے ساتھ ر سالے نے خدمت ادب کا خواب سنجویا تھاوہ شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس قلیل مدت میںجس طرح اس رسالے نے سورج بننے کے سفر کوطے کیا اور اپنا ایک خاص معیار بنایا ہے،وہ قابل تعریف ہے۔مختلف النوع مشمولات کے سبب بزرگ اور نو آموز قلمکاروں کی توجہ اس رسالے کو یکساں طور پر مل رہی ہے۔پانچ سال کے بیس شماروںمیں اس رسالے نے بیشتر ایسے موضوعات کو روشن کیا ہے جس کی طرف عام مدیران کی توجہ کم جاتی ہے۔بیشک یہ ڈاکٹر سلیم احمد اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کا ثمرہ ہے جو نہ صرف رسالے کی باریکیوں پر نظر رکھتی ہے بلکہ ہر مضمون کو لفطاً لفظاً پڑھ کروقت ضرورت اصلاح بھی کرتی ہے۔اس طرح یہ جریدہ اردو کے چند معیاری رسالوں میںاپنی منفرد حیثیت بنانے میں کامیاب رہا۔‘‘
(حوالہ۔1،ص۔5،روزنامہ، اودھ نامہ ،مارچ 2022ء (
اترپردیش کے گورنر جناب رام نائیک جو اردو زبان سے دلچسپی رکھتے ہیں، اس بات کا ثبوت ان کی مراٹھی زبان میںلکھی گئی کتاب ’چرے وتی چرے وتی ‘کا اردو زبان میں ترجمہ ہے۔انہوں نے اس جریدہ کی پہلی اشاعت پرایک پیغام دیا ہے جس میں اردو زبان و ادب کے استحکام اور اس کے قارئین کے اضافہ کی امید ظاہر کی ہے ۔ایڈیٹر ڈاکٹر سلیم احمد نے اپنے ادبی مشیررفعت عزمی اور نیا دور کے سابق ایڈیٹروضاحت حسین رضوی کے ہمراہ رسالہ کا پہلا شمارہ گورنر رام نائیک کو پیش کیا۔ادبی نشیمن کے مارچ تا مئی 2018 کے شمارہ کے آخری صفحہ پر پہلے شمارہ کے رسم اجرا کی دیدہ زیب تصویر ہے جس میں پروفیسر شارب رودولوی،مرزا شفیق حسین شفق، ڈاکٹر سلیم احمد،رفعت عزمی اور غفران نسیم وغیرہ کو دیکھا جا سکتا ہے اور اس کی سرکاری سرپرستی وتاریخی دستاویز کی اہمیت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔گورنر اترپردیش رام نائیک کا پیغام پیش خدمت ہے:
’’خوشی کی بات یہ ہے کہ لکھنؤ سے اردو کا ایک سہ ماہی رسالہ’ادبی نشیمن‘منظر عام پر آرہا ہے۔اردو گنگا جمنی تہذیب کی ایک نمائندہ زبان ہے۔امیدہے کہ ’ادبی نشیمن‘کی اشاعت سے اردو کو فائدہ پہنچے گا اور اس کے قارئین کے دائرے میں مزید اضافہ ہوگا۔’ادبی نشیمن‘کی کامیابی کے لئے میری نیک خواہشات۔‘‘
(حوالہ۔2 ،سہ ماہی ادبی نشیمن دسمبر2017 تا2018)
رسالہ ’ادبی نشیمن‘کے اب تک کل 20 شمارے شائع ہوچکے ہیں اور شائقین ادب سے داد و تحسین حاصل کر رہے ہیں۔اس رسالہ کے مشمولات میں تمام اصناف سخن (منثور و منظوم )شامل ہیں۔پہلے شمارے سے ہی اس کی علمی و ادبی اہمیت اور اس کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس کے ہر شمارے کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں بزرگ قلمکاروں کے ساتھ ہی ساتھ نو آموز فنکاروںکو محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑا دیکھا جا سکتا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ رسالہ بلا تفریق مذہب و ملت نسل نو کی آبیاری ادبی بصیرت کے ساتھ کر رہا ہے۔اس رسالے نے ادبی شخصیات کے کئی خصوصی نمبر(انور جلال پوری نمبر،محمود الٰہی نمبر) اور خصوصی گوشے (رشید حسن خان ،فضل امام رضوی ، شمس الرحمٰن فاروقی،ظفر احمد صدیقی،گلزار دہلوی اور راحت اندوری)اور خراج عقیدت نمبر(فضل امام رضوی،شمیم حنفی،ابولکلام قاسمی،مولا بخش،عنبر بہرائچی،شوکت حیات،افتخار امام صدیقی وغیرہ)زیب قرطاس کئے ہیں۔یہ تمام خصوصی نمبر اور گوشے اردو کے ان آفتاب و ماہتاب کے مانندہیںجو نسل نو خاص کر ریسرچ اسکالرز کے لئے مشعل راہ ثابت ہو ںگے ۔ اس جریدے میںادباء و شعراء نے انور جلال پوری،پروفیسر محمود الٰہی،رشید حسن خان،شمس الرحمٰن فاروقی وغیرہ کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔کسی نے انور جلال پوری کومسجع جملوں کا فنکار، سماج کو سبق پڑھانے والا قلمکار،تو کسی نے اردو ادب کا شہسوار اور کسی نے ادب کی مجسم تصویر کے عناوین سے سرفراز کیا ہے۔کسی نے پروفیسر محمود الٰہی کوادبی سومنات کا محمود،اردو تحقیق کی آبرو محمود الٰہی،پروفیسر محمود الٰہی کی طنزیہ تحریریں،تو کسی نے میرے کتابی استاد کی شہ سرخی سے سر بلند کیا ہے۔کسی نے گلزار دہلویؔ کو دبستان دہلی کا آخری سخنور:گلزار دہلوی،گنگا جمنی تہذیب کا حسین سنگم:گلزار دہلوی عناوین سے تو کسی نے راحت اندوری کو عوامی اقدارو احساسات کے انقلابی شاعر:ڈاکٹر راحت اندوری،حق گوئی و بے باکی کا نقیب:راحت اندوری کے عناوین سے گلہائے عقیدت پیش کیا ہے۔اسی طرح رشید حسن خان،ظفر احمد صدیقی اور دیگر شخصیات کے عناوین کی فہرست کافی طویل ہے۔ان عناوین کے قلمکاروں میں کہنہ مشق شاعر و ادیب کے علاوہ نئے نئے فنکاروں نے قلم فرسائی کی ہے جس میں دبستان لکھنؤ کی لسانی خصوصیات کو صاف طور پردیکھا جا سکتا ہے ۔اس سلسلے میں پروفیسر محمود الٰہی خصوصی نمبر کے ایک عنوان ’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ‘سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس سے ان کی علمی ،ادبی،تحقیقی وتنقیدی پہلوؤں سے بصیرت حاصل کی جا سکتی ہے :
’’فسانہ عجائب کا بنیادی متن،نکات الشعراء،تذکرہ شورش،اردو کا پہلا ناول ۔خط تقدیرہو یا پھر ان کا تحقیقی مقالہ’اردو قصیدہ نگارہی کا تنقیدی جائزہ‘یہ ان کے وہ تحقیقی اثاثہ ہیںجس کی بنیادپر انھیںادب میں معتبرمحقق اور نقادکی حیثیت حاصل ہے۔مولاناابولکلام آزادکے اخبار’ الہلال‘اور ’البلاغ‘کو تلاش کر تحقیقی مقدمے کے ساتھ مرتب کرنا،انشاء پردازمہدی افادی کے خطوط کے مجموعہ’صحیفہ محبت‘کو بھلا کیسے بھلا سکتے ہیںجبکہ ’بازیافت‘ ان کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے جس میں کل دس مضامین شامل ہیں۔اسی میں اردو ڈرامہ اور انار کلی کے عنوان سے شامل مضمون میں جو تجزیہ موصوف نے پیش کیا ہے۔ اسے اب تک اردو تنقید کا حرف آخر مانا جاتا ہے جبکہ باقی مضامین ان کی تحقیقی ،تنقیدی،علمی، صلاحیت کو اجاگر کرتی ہیں جو یقیناً اردو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے دستاویز ہیں۔‘‘
(حوالہ۔3 ص۔ 4 ادبی نشیمن۔مارچ تا مئی 2019 )
اسی طرح سے ناظم مشاعرہ ، شاعراور کئی نگارشات کے خالق انورجلال پوری کو جن لوگوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ان میں سے ایک مشہور شاعر و ادیب اوران کے کلام موزوںکے ہمراہی سنجے مصرا شوقؔہیں۔سنجے مصرا شوق ؔنے اپنے مضمون ’اردو شاعری میں گیتا‘میں ان کی شخصیت اور زندگی کے نشیب وفرازکو اس طرح سے اجاگر کیا ہے:
’’پامال راہوں پر چلنے والے،چھوٹے چھوٹے راہوں میں مقید رہ کر ہی مست مگن رہتے ہیں۔جبکہ نکیلے پتھروں پر دیوانہ وار چل کر تلوؤں سے رسنے والے لہو کی فکر نہ کر نے والے ہی کسی بڑے دائرے کو جنم دے پاتے ہیں۔انور جلال پوری ایک ایسے دانشور ہیںجو علاقائی اور لسانی دائروں سے نکل کر،دل کی آواز پر بے خوف و خطر لکھتے ہیںاور بہت خوب لکھتے ہیں۔جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیںاس کا حق ادا کرتے ہیں۔نفرت،تعصب اورتنگ نظری کی ہر دیوار کووہ عزم و حوصلہ کی ٹھوکر سے منہدم کردینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔مختلف تہذیبوں اور زبانوں کا انھیں گیان ہے۔نظامت کے حوالہ سے دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کا سفر طے کر چکے ہیں۔درس وتدریس سے طویل عرصہ تک تعلق کے سبب نسلوں کی آبیاری کا انھیں تجربہ ہے۔ قوموں کے عروج وزوال پر ان کی گہری نظر ہے۔‘‘
(حوالہ۔4 ص۔16 ادبی نشیمن ،مارچ تا مئی 2018 (
رسالہ کے ایڈیٹر ڈاکٹر سلیم احمد اردو کے ادیب،افسانہ نگار،نقاد اور معتبرصحافی کے طور پر ادبی حلقوں میں اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔فی الحال وہ اترپردیش کے محکمہ اطلاعات و نشریات میں اپنی خدمات کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔وہ برابر اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیںاور مختلف موضوعات ومسائل پراپنے خیالات و نظریات کو جنبش قلم کرتے رہتے ہیں،جس کی علمی اور ادبی حلقوں میں برابر پذیرائی ہوتی رہتی ہے۔انہوںنے اپنے اداریوں کے توسط سے ہندوستانی سماج،ادب، سیاست و حکومت کو آئینہ دکھانے اورعوام کو اس کی ذمہ دارویوں کا احساس دلانے کے لئے جس حوصلہ،ہمت اور بیباکی سے ہمہ وقت قلم فرسائی کرتے رہتے ہیں یہ انھیں کے بس کی بات ہے ۔ دیگر رسالوں کے اداریوں میں اس طرح کے بے باک انداز بیان کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ان کے اداریوں میں ایک طرح کا نشتر ہوتا ہے جو ناسور بن چکے مسائل کا آپریشن کرنا چاہتا ہے تا کہ اس کو جلد از جلد ختم کیا جا سکے۔ ایک اقتباس دیکھئے:
’’اترپردیش میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملے 29 برس کا عرصہ گزر چکا ہے مگر آج تک یہ زبان نافذ ہونے سے محروم رہی حالانکہ اس دوران سازگار حکومتیں بھی آئیںمگر تب’’ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے‘‘،اب تو حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں جس کی اصل وجہ حکومت کی تنگ نظری اور فرقہ پرست ذہنیت ہے۔صرف اور صرف یہ ہے کہ اس زبان کو ایک خاص طبقہ یعنی اقلیتوں سے جوڑ کر مذہب کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔،تقسیم ہند کے بعدسے ہی یہ زبان تعصب کی بنا پر اپنی جائے پیدائش میںفرقہ پرستانہ،تنگ نظری،اجنبیت اورسرد لہری کا شکار ہو گئی اور تبھی سے یہ اپنی بقا اور ترویج وترقی کے لئے جدو جہد کر رہی ہے۔اردو زبان میں ملازمت کرنے کے دروازے بند کرنے کے راستے ہموار کئے جا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ اب بھی سوئے ہوئے ہیں۔‘‘
(حوالہ۔ 3 ،ص ۔2،ادبی نشیمن ،مارچ تا مئی 2018 (
کروناکی دوسری خطرناک لہر میں انسانی جانوں کا زیاں جس تیزی کے ساتھ ہو رہا تھا۔آکسیجن اور ضروری ادویات کی جمع خوری اور لوٹ گھسوٹ سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن رہے تھے۔قبرستانوں اور شمشان کھاٹوں پر لاشوں کے انبار لگے تھے۔ گنگا میں بہتی لاشیں اور اس کے گھاٹ مردوں کی مرتیو شییا (موت کا بستر)بنے ہوئے تھے۔ ہر طرف قیامت صغریٰ برپا تھی۔ارباب حکومت اور سیاست اس مصیبت کی گھڑی میں خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ ایسے میں ادیبوںکا فرض بنتا ہے کہ وہ ارباب اقتدار کو اپنی تحریروں کے ذریعہ حقیقت کا آئینہ دکھائے۔ اس کام کو ڈاکٹر سلیم احمدنے اپنے اداریہ میں بخوبی انجام دیا ہے۔:
’’کرونا کی دوسری لہربے حد خطرناک طریقہ سے ملک میں داخل ہوئی اور اپنا قہر بے حد تیزی کے ساتھ بکھیرنے لگی اور پھر شروع ہو گیا مریضوں اور اموات کی طویل ہوتی فہرست کا سلسلہ۔جیسے جیسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے طبی مسائل کھڑے ہوتے گئے۔اپریل کے آخر تک تو آکسیجن کی قلت سے پورے ملک میں افراتفریح مچ گئی۔عوام آکسیجن کے بغیر تڑپ تڑپ کر مرتے رہے اور لوگ اپنے عزیز و اقارب، ماں،باپ،بھائی ،بہن کو اپنی آنکھوں کے سامنے آکسیجن نہ مل پانے کی وجہ سے مرتے ہوئے دیکھتے رہے مگر وہ بے بس اور مجبور تھے۔ملک کا تیسرا اور چوتھا ستون بے حسی میں مبتلا رہا۔ایسے میں ملک کے پہلے ستون کو کہنا پڑا کہ’حکومت چاہے بھیک مانگے لیکن ریاستوں کی آکسیجن کی طلب کو پورا کرے۔‘تب تک انسانی جانوں کے سوداگروں کا کھیل بھی شروع ہو گیا تھا۔آکسیجن اور انجیکشن کی بڑے پیمانے پر کالا بازاری اور نرسنگ ہوم کی قزاقی نے متوسط طبقہ کے عوام کی کمر توڑ دی۔بہرحال اس دوسری لہر سے اردو کو جو جانی ادبی نقصان ہوا وہ اردو ادب کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بدترین دور تھا۔ایک کے بعد ایک اردو ادب کی عظیم شخصیتوں کا اتنی بڑی تعداد میںدنیا سے رخصت ہونا یقیناًتاریخ اردو ادب کابہت بڑا خسارہ ہے۔‘‘
(حوالہ 5 ،ص۔4 ،ادبی نشیمن ،ستمبر تا نومبر 2021 (
سہ ماہی رسالہ’ ادبی نشیمن‘ کے مجموعی شماروں پر جب ادب کے پارکھی تنقیدی و تحقیقی نظر ڈالتے ہیں تو اس میں کچھ کمیاں اور خامیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔جب ہم اس رسالہ کے پہلے شمارہ کا تحقیقی نقطہ نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کے انگریزی نام دو طرح سے ملتے ہیںپہلاAdabi Nasheman) ) اور دوسرا (Adbee Nasheman) ۔اس سلسلے میںجب رسالہ کے ایڈیٹر ڈاکٹر سلیم صاحب سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے اس خامی کو تسلیم کیا۔انھوں نے بتا یا کہ’ ادبی نشیمن ‘کا رجسٹریشن Adbee Nasheman کے نام سے ہوا ہے جبکہ یہ لفظ درست نہیں ہے۔اس کا صحیح املا Ababi Nasheman ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے ادبی مشیر رفعت عزمی کے علاوہ دیگر حضرات نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے اس کو درست کرانے کی کوشش جاری ہے اور رجسٹریشن کی اس خامی کو جلد از جلد درست کر لیا جا ئے گا۔علاوہ ازیںرسالہ کے پہلے اور دوسرے شمارے میںمجلس ادارت کا ذکر نہیںملتا ہے،تیسرے شمارہ میںپانچ حضرات کے نام مجلس ادارت میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔2022 میں مجلس ادارت کے ارکان کی تعداد چھ ہو جاتی ہے۔یہ ان کے رسالے کی ریویو پالیسی کو مستحکم بنانے میں ان کی معاونت کرتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مختلف دبستانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔مجلس ادارت کے تمامی حضرات کہنہ مشق اور تجربہ کار ،کئی کئی کتابوں کے تخلیق کار اورمختلف اصناف پر دسترس رکھتے ہیں ۔لیکن میری ناقص رائے میں مجلس کے اراکین کا پلڑا کلام موزوں کے مقابلہ کلام غیر موزوں میںبھاری دکھائی دیتا ہے اور ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے کہ رسالہ کے منظوم و منثور حصوں کے توازن کو برقرار رکھا جائے۔
کسی بھی جریدے کی قدر وقیمت کا فیصلہ اس کے قارئین کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔قارئین کے ردعمل(فیڈ بیک)ان کے خطوط کے توسط سے ایڈیٹر کو دستیاب ہوتے ہیں جس میں وہ رسالہ کی کمیوں اور خوبیوں پر اپنے ردعمل کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔رسالہ کا مدیروقت کا نباض ہوتا ہے اور اپنے قارئین کے بتائے گئے راستے ، سجھائے گئے طریقے اور نیک مشورے کا پاس و لحاظ بھی رکھنا پڑتا ہے۔ ان میںسے کچھ خطوط تعریفی،تخریبی اور تنقیدی بھی ہوتے ہیںجو رسالہ کے لئے مستقبل کی کامیابی کی راہ کے ضامن ہوتے ہیں۔رسالے کے مدیریا ایڈیٹر کو کو قارئین کی طرف سے برابر خطوط موصول ہو تے رہتے ہیں ۔ایسا ہی ایک خط خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی لکھنؤکی ریسرچ اسکالر عافیہ حمید نے لکھا ہے جو آپ کی توجہ کا طالب ہے ،ملاحظہ ہو:
’’شکر ہے آج لکھنؤ سے بہت سے ادبی رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ہر رسالے کی اپنی انفرادی خصوصیات ہیںاور وہ اپنی انفرادیت کی بنا پرادبی دنیا میں متعارف بھی ہیںاور مخصوص شناخت کا حامل بھی۔ادبی نشیمن بھی لکھنؤ سے ہی شائع ہونے والاایک علمی و ادبی رسالہ ہے۔جو نہ صرف ایک ادبی رسالہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک انجمن کی شان بھی رکھتاہے۔یہ رسالہ ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کی ادارت میں ہر تین ماہ پر پابندی کے ساتھ منظر عام پر آتاہے اور علمی تشنگی بجھانے کا سبب بنتا ہے۔اس وقت دسمبر تا فروری 2022 کا شمارہ میرے پیش نظر ہے۔اس کے ہر صفحے کو ادبی گل بوٹے سے آراستہ کیا گیا ہے مگر جو بات دل کو خوش کرتی ہے وہ یہ ہے کہ رسالے کا اپنا ایک متعین معیار ہے۔اس میں شائع تمام تحریریںپختہ اور معیاری ہیں۔اس کے ساتھ ہی اس میں نئے لکھنے والوں کوفراخدلی کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے اور خاطر خواہ اصلاح بھی کی جاتی ہے تاکہ مضمون معیاری بن سکے۔خوشی اس بات کو دیکھ کر بھی ہوتی ہے کہ اس رسالے میں تمام اصناف سخن کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ادبی نشیمن نے اپنی تمام خصوصیات کے دم پربہت جلد ادبی دنیا میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔بلا شبہ اس طرح کے کام میںبے حد محنت،وقت اور توجہ درکار ہوتا ہے اور ساتھ ہی بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود رسالہ پابندی کے ساتھ نکل رہا ہے،یہ نیک فال ہے اور اس کا سارا کریڈٹ مدیر محترم اور ان کے معاونین کو جاتا ہے۔جنکی کوششوں کی بدولت رسالہ ادبی افق پر روشنی بکھیرنے میں کامیاب نظر آرہا ہے۔
ادبی نشیمن جہاں نثری صلاحیتوں کو نکھارنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ وہیںاس نے ذوق شاعری کو جلا بخشنے میں کوئی کسرچھوڑ نہیں رکھی ہے۔خوشی ہے کہ اس شمارے میں چھ خوبصورت غزلوں کو جگہ ملی ہے۔اس کے ساتھ ہی دو عمدہ کتابوں پربہترین تبصرے شامل ہیں۔بے شک یہ نہایت مدلل اور مبسوط تبصرے ہیںاور اردو کے طلبہ کے لئے ان کتابوں کو سمجھنے میں رہنما ثابت ہوں گے۔رسالہ سلیم صاحب کے اداریہ سے شروع ہو کر دستاویزکے معلوماتی صفحات پر ختم ہوتا ہے۔ساتھ ہی ڈاکٹر شمیم نکہت ایوارڈ فکشن کے پر وقار منظر کے عکس کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔اپنے عہد کی تاریخ کو سمیٹنے کی یہ کوشش متاثر کن اور قابل داد بھی ہے۔ادبی نشیمن کے مدیراور تمام معاونین کو اس خوبصورت رسالے کی اشاعت پردل سے مبارک باد اور دعائیں۔‘‘
( حوالہ۔ 6،ص۔5،روزنامہ ،اودھ نامہ ،مارچ 2022ء (
موجودہ دور میںلکھنؤ کے ادبی وصحافتی فلک کا درخشاںستارہ سہ ماہی رسالہ ’ادبی نشیمن ‘ ہے جو اپنی روشنی ہر سمت پھیلا رہا ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میںاس کا دائرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جس سے اس کی شہرت و مقبولیت میںبھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔یہ رسالہ نئے نئے خیالات ونظریات کے ساتھ ہی ساتھ نئے و پرانے لکھنے والوں کے لئے دہلیز بنا ہواہے،جہاں مختلف دبستابوں سے تعلق رکھنے والے صاحب قلم سر جھکاتے ہیںاورعلمی و ادبی سکون حاصل کرتے ہیں۔ اس رسالہ کی مجلس ادارت میں جن صاحب قلم کو شامل کیا گیا ہے وہ سب کے سب بہت ہی تجربہ کا اورلائق و فائق حضرات ہیں۔ مجلس ادارت میں شامل حضرات رسالہ میںشائع ہونے والے مضامین کوشائع کرنے سے پہلے اس کا ریویو کرتے ہیں اور اس کے بعد ان مضامین کو شائع کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔وہ اس مشکل طلب کام میں رسالہ کے ایڈیٹر ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کی پوری محنت اور ایمانداری کے ساتھ مدد کرتے ہیں۔اس رسالہ میںشائع ہونے والے مضامین کی تحریریں پختہ اور دلکش ہوتی ہیں اور قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔تمام اصناف سخن کو خوش آمدید کہا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس رسالہ کا معیار دن بہ دن ترقی کی راہ پر تیزی کے ساتھ گامزن ہوتا جا رہا ہے اور اس کے روشن مستقبل کا ضامن ہے۔آخر میں میں اپنی بات کو نور شمع نورؔکی نظم ’اجالے کی لکیر‘کے ان اشعار پر ختم کرتا ہوں:
وقت کی گرد چھٹے گی تو بعنوان سحر
منزل شوق کی راہوں کا تعین ہوگا
اک نئے دور کی تعمیر کرینگے ہم سب
چاند تاروں سے سجا اپنا نشیمن ہوگا
(یعنی رسالہ سہ ماہی ادبی نشیمن)
کتابیات:
حوالہ ۔1،ص۔5،روزنامہ ،اودھ نامہ ،6مارچ 2022ء لکھنؤ
حوالہ۔2 ،سہ ماہی ادبی نشیمن دسمبر2017 تا2018لکھنؤ
حوالہ۔3 ص۔ 4 ادبی نشیمن۔مارچ تا مئی 2019 لکھنؤ
حوالہ۔4 ص۔16 ادبی نشیمن ،مارچ تا مئی 2018 لکھنؤ
حوالہ 5 ،ص۔4 ،ادبی نشیمن ،ستمبر تا نومبر 2021 لکھنؤ
حوالہ۔ 6،ص۔5،روزنامہ ،اودھ نامہ ،6مارچ 2022ء
حوالہ 7-، نور شمع نورؔکی نظم ’اجالے کی لکیر ،ریختہ ڈاٹ کام
ڈاکٹر وصی احمد اعظم انصاری
(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ ٔ اردو، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ)
نوٹ: یہ مضمون یکم نومبر 2022 کو شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ، میرٹھ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمینار ”اردو کا دبی صحافت“ کے آخری سیشن میں پیش کیا گیا اور سہ ماہی” تحریک ادب“ بنارس کے جنوری تا مارچ 2023 کے شمارے میں طبع ہوا۔